Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

بیٹے کی جان کا سودا کرنے والا لالچی باپ

ماہنامہ عبقری - نومبر 2014ء

 تقریباً آدھ گھنٹہ ڈاکٹرصاحب کو رضامند کرنے پر لگ گیا۔ اب ڈاکٹر صاحب دفتر سے باہر نکلا اور لاؤنج میں سٹریچر پر خون میں لت پت بے ہوش نوجوان کو دیکھا اسے دیکھتے ہی ڈاکٹر کی چیخیں نکل گئیں کیونکہ یہ خوبصورت نوجوان اس کا حقیقی اکلوتا بیٹا تھا۔

(پرنسپل (ر) غلام قادر ہراج)

اللہ تعالیٰ کی یہ دنیا اندھیر نگری نہیں ہے‘ یہاں بھی محدود پیمانے پر سزا اور جزا کا عمل جاری ہے‘ چوالیس سال پہلے کا یہ سچا واقعہ ہے جسے سنڈے میگزین روزنامہ نوائے وقت نے بھی شائع کیا۔جس ڈاکٹر صاحب کا یہ واقعہ ہے ان کا نام صیغہ راز میں رکھ رہا ہوں تاکہ یہ مضمون آلودہ غیبت نہ ہوجائے نیز ڈاکٹر صاحب کے اعزا و اقرباء کی دل آزاری کا موجب نہ ہو‘ میرا مقصد اس واقعہ سے عبرت پکڑنے کے سوا اور کوئی نہیں۔ ایک وقت تھا جب مذکورہ ڈاکٹر صاحب پاکستان بھر میں واحد نیورو سرجن تھے‘ دماغی امراض اور دماغی حادثات کے ماہر اور لائق سرجن تھے۔ وقت لینے کیلئے مریضوں کے لواحقین ان کے پاؤں پکڑا کرتے تھے‘ ان کی مہارت‘ تجربہ اور اہمیت نے انہیں سخت مزاج بنادیا‘ وہ پیسے کے پجاری تھے اور انسانی اخلاقیات سے قطعی عاری تھے‘ بعض دفعہ تو وہ مریض کی کھوپڑی کھول کر ان کے لواحقین سے سودے بازی کرتے تھے۔ایک رات ایک خداترس انسان سڑک کے کنارے اپنی کار میں جارہے تھے‘ انہوں نے دیکھا کہ اٹھارہ انیس سال کا ایک خوبرو نوجوان سڑک پر بے ہوش پڑا ہے اور اس کی موٹرسائیکل وہیں گری پڑی ہے اس کار سوار نے ہمت کرکے نوجوان کو اٹھایا اور اپنی کار میں ڈال کر ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر لے گیا کہ شاید اس کی جان بچ جائے۔ نیک دل انسان نے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی اور بتایا کہ میں نے ایک خوبصورت نوجوان کو سڑک پر بیہوش دیکھا‘ کوئی گاڑی والا اس کی موٹرسائیکل کو ٹکڑ مار کر بھاگ گیا ہے‘ میں انسانی ہمدردی کے جذبات کے تحت آپ کے پاس لایا ہوں‘اسے جلدی دیکھئے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کی شفقت سے قدرت اسے زندگی کا موقع دے دے۔ ڈاکٹر صاحب نے کمال بے نیاز سے کہا کہ میرے پاس وقت کہاں کہ ایسے مریضوں کو بے مقصد دیکھتا رہوں‘ میری فیس پچاس ہزار روپے ہے‘ نہیں ہے تو جائیے اور کسی ہسپتال میں مریض داخل کرائیے۔ نیک انسان نے عاجزی سے کہا کہ میں اس وقت اتنی فیس تو دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں‘ صرف انسانی ہمدردی کے تحت آپ جیسے مسیحا کے پاس لایا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ پہلے رقم طے کریں‘ ادائیگی رقم کے بعد ہی آپریشن کروں گا۔ جب نیک دل انسان کی کوئی بات نہ مانی گئی تو اس نے وعدہ کیا کہ میں گھر جاکر چالیس ہزار روپے فیس لاؤں گا اور آپ کی خدمت میں پیش کروں گا آپ اسے چیک کریں‘ اس مکالمہ کے دوران مریض کی حالت غیر ہوتی گئی کیونکہ تقریباً آدھ گھنٹہ ڈاکٹرصاحب کو رضامند کرنے پر لگ گیا۔ اب ڈاکٹر صاحب دفتر سے باہر نکلے اور لاؤنج میں سٹریچر پر خون میں لت پت بے ہوش نوجوان کو دیکھا اسے دیکھتے ہی ڈاکٹر کی چیخیں نکل گئیں کیونکہ یہ خوبصورت نوجوان اس کا حقیقی اکلوتا بیٹا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بہتے آنسوؤں اور لرزتی انگلیوں کے ساتھ آپریشن کیا مگر دوران آپریشن اس کی نظروں کے سامنے لڑکے نے آخری ہچکی لی اور اس کے ہاتھوں خالق حقیقی سے جاملا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی شان بے نیازی نے ایک سفاک‘ بے رحم اور زرپرست معالج کو اس کی زندگی میں ہی نقد سزا دے دی۔ تقدیر انسان کے بُرے اور بھلے اعمال کے تناظر میں حرکت کرتی رہتی ہے۔ ان بطش ربک لشدید۔مولانا ظفرعلی خان مرحوم فرماتے ہیں:۔

نہ جا اس کے تحمل پہ کہ ہے بے ڈھب گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گہری سے‘ کہ ہے سخت انتقام اس کا

ماں سے بغاوت اور زندگی غارت
(ج،ا۔سرگودھا)

محترم حکیم صاحب السلام علیکم! میں اپنے والدین کا وہ بدقسمت بیٹا ہوں جس نے اپنی دنیا تو خراب کی ہی کی ہے ساتھ لگتا ہے کہ آخرت بھی خراب کربیٹھا ہوں۔
میں دو سال کا تھا کہ میرے والد محترم وفات پاگئے۔ جب ذرا ہوش سنبھالی تو والدہ محترمہ ذرا سی سخت طبیعت کی تھیں۔ اگر میں کوئی خراب کام کرتا یا کوئی غلطی کرتا تو مجھے ڈانٹتی اور اکثر تھپڑ وغیرہ لگادیتیں۔ پتہ نہیں وہ عمر ہی ایسی تھی کہ میرے دل میں ان کیلئے نفرت سی پیدا ہونا شروع ہوگئی‘ میں اکثر ان سے زبان درازی کرتا‘ اگر وہ مجھے ڈانٹتی تو میں بھی برابر ان کو اسی لہجے میں ڈانٹتا جس کی وجہ سے میری ماں رونا شروع کردیتیں اور میں ’’بکواس‘‘ کرتا ہوا گھر سے باہر چلا جاتا۔
اسی دوران میری ماں روتی دھوتی دنیا چھوڑ کر چلی گئی‘ میرے سے دو بڑی اورایک چھوٹی بہن ہے۔ بڑی بہن پڑھی لکھی تھی‘ وہ شادی کرکے سعودی عرب چلی گئی‘ اُسی بہن نے ہمیں پالا پوسا‘ پڑھایا‘ شادیاں کیں۔میری شادی ایک نہایت ہی سفاک‘ چالباز‘ بدکردار عورت سے ہوئی‘ میں بیس سال سے بیرون ملک محنت مزدوری کرتا ہوں‘ وہ مکہ مکرمہ میں دو سال میرے ساتھ رہی‘ واپسی پر ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ اچانک میری آنکھ کھلی تو میری بیوی کسی پر فون پر باتیں کررہی تھیں ‘ میں اس کو ڈیڑھ گھنٹہ سنتا رہا ‘ وہ کسی غیرمرد سے ایسی گھٹیا باتیں کررہی تھیں کہ میرا خون کھول اٹھا‘ میں اٹھا اور اس سے وہ نمبر مانگا مگر اس نے وہ نمبر نہیں دیا اور مجھ سے لڑائی کرکے اپنے باپ کے گھر چلی گئی۔ میری بیوی 45 تولے سونا‘ قیمتی اشیاء‘ لیپ ٹاپ‘ موبائل وغیرہ لیکر اپنے باپ کے ساتھ چلی گئی۔ اس نے خلع لے لیا‘ فیصلہ اس کے حق میں ہوا‘ اسے اپنا مال مل گیا اور مجھے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔اب میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے زندگی میں کبھی سکون نصیب نہیں ہوا‘ ہروقت ایک عجیب بے چینی‘ میرا کوئی کام باآسانی نہیں ہوتا‘ میرے پاس کوئی پیسہ نہیں ٹھہرتا‘ کسی نہ کسی طرح نکل جاتا ہے‘ کوئی مخلص دوست نہیں ملا۔ ملتا بھی تو کیسے میں خود اپنی ماں سے مخلص نہیں تو مجھے دوست یا بیوی کیسے مخلص ملتی۔ میری ماں کو وفات پائے دس سال ہوگئے ہیں مگر یہ دس سال میرے لیے صرف بربادیاں لے کر آئے۔

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 686 reviews.